عید قرباں
موضوع: دوریاں مٹانے اور خوشیاں پھیلانے کا اہم موقع
ماہ ذی الحجہ اپنی بہاریں لٹا رہا ہے، اس کی آمد ہوتے ہی سنت ابراہیمی کی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں، ہر سال لاکھوں لاکھ مسلمان اس ماہ مقدس میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی بجاآوری، سنت ابراہیمی اور سنت مصطفیٰ ﷺ کی ادائیگی کے لیے کمر بستہ دکھائی دیتے ہیں۔ ہر صاحب استطاعت مسلمان کو چاہیے کہ وہ رضائے الٰہی کے حصول اور سنت ابراہیمی کی ادائیگی کی نیت سے اس مہینے میں مال حلال سے قربانی کا فریضہ سرانجام دے کیونکہ یہ بہت بڑی سعادت کی بات ہے۔ قرآن کریم میں اللہ قربانی کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے۔ ”تو تم اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔“
قربانی نام ہے مخصوص جانور کو مخصوص دن میں بہ نیت تقرب ذبح کرنا۔
قربانی کرنے کے لیے تقویٰ و اخلاص ہونا بھی بے حد ضروری ہے کیونکہ اگر کوئی نیک عمل لوگوں کو دکھانے یا کسی اور غرض سے کیا جائے تو وہ ہرگز قابل قبول نہ ہوگا، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اعمال کی قبولیت کے لیے تقویٰ اور اخلاص کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ مگر افسوس ہمارا حال تو یہ ہے کہ اول تو نفس و شیطان ہمیں نیکیاں کرنے دیتے نہیں اور اگر كوئی نیكی کرنے میں کامیاب ہو بھی جائے تو شیطان اس کی عبادت كو ضائع کرنے کے لیے اپنا پورا زور لگا کر یا تو اس عبادت میں کوئی غلطی کروا دیتا ہے یا پھر اس عمل میں ریاکاری کروا کر وہ عمل ہی ضائع کروا دیتا ہے۔
یاد رکھئے! ہمیں قربانی اور اس کے علاوہ دیگر نیک اعمال اخلاص و استقامت کے ساتھ اللہ کی رضا و خوشنودی کے لیے کرنے چاہیے۔ ہمیں چاہیے کہ قربانی کرتے وقت سب کو راضی کرنے کے بجائے اپنے رب کو راضی کرنے کی کوشش کریں اور تقویٰ و اخلاص کو پیش نظر رکھیں، کیونکہ اللہ کی بارگاہ میں وہی قربانی مقبول ہے جس میں تقویٰ و اخلاص شامل ہو ورنہ ہمیں جس جانور کی قربانی کرنی ہے، اس کا گوشت اور دیگر منافع ہم ہی حاصل کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جانور کا کوئی حصہ نہیں پہنچتا، اللہ کی بارگاہ میں تو قربانی کرنے والے کا اخلاص و تقویٰ پہنچتا ہے جیسا کہ قرآن مقدس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ”اللہ کو ہرگز نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں نہ ان کے خون ہاں تمہاری پرہیزگاری اس تک باریاب ہوتی ہے۔“ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ لوگوں کو دکھانے اور اپنا نام کمانے کی غرض سے ہرگز کوئی عمل نہ کریں بلکہ اللہ کی رضا و خوشنودی کے لیے نیک عمل کرنے کی عادت بنائیں۔
یاد رہے کہ جس شخص پر شرعی اصولوں کے مطابق قربانی واجِب ہے اس پر قربانی سے متعلق مسائل سیکھنا بھی لازمی ہیں۔ اس زمانے میں علم دین سے دوری کے باعث مسلمانوں کی ایک تعداد اس اہم فریضہ کو بھی کماحقہ ادا نہیں کر پاتی، ہمارے معاشرے میں ایک تعداد ایسی ہے جن کی دینی معلومات کا حال یہ ہے کہ ایک ہی گھر میں رہنے والے مختلف مالک نصاب افراد پورے گھر کی طرف سے ایک ہی بکرا قربان کر دیتے ہیں اور قربانی کے لیے کیسا جانور ہونا چاہیے یا کس عیب کی وجہ سے قربانی نہیں ہوگی، انہیں معلوم ہی نہیں ہوتا اور وہ قربانی کرنے کے بعد اس خوش فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ ہم نے بھی سنت ابراہیمی پر عمل کر لیا اور ہمارا واجِب ادا ہو گیا۔ حالانکہ ان کے ذمہ واجب کی ادائیگی باقی رہتی ہے۔ اس لیے قربانی کے احکامات کا علم ہونا بہت ضروری ہے۔
عید قرباں سال میں صرف ایک بار تشریف لاتی ہے، بلا شبہ یہ دوریاں مٹانے اور خوشیاں پھیلانے کا انتہائی اہم موقع ہوتا ہے۔ شریعت مطہرہ نے جس طرح ہمیں عام حالات میں رشتے داروں، ہمسایوں، فقیروں اور مسکینوں کی خیر خواہی کرنے، خوشی غمی کے موقع پر ان کی دلجوئی کرنے اور مشکل وقت میں ان کی مدد کرنے کی ترغیب دلائی ہے، اسی طرح عید قرباں کے پرمسرت لمحات میں بھی ان کے ساتھ خیر خواہی کرنے اور ان کے لیے قربانی کے گوشت میں حصہ مقرر کرنے کو مستحب (یعنی ثواب کا کام ) قرار دیا ہے۔ ان بابرکت ایام میں اپنے عزیز و اقارب، دوست و احباب اور فقرا و مساکین کو بھی اپنی خوشیوں میں شریک کریں اور قربانی کے گوشت میں سے گھر والوں کا حصہ نکال کر بقیہ حصہ فقرا و مساکین کے لیے متعیـن کر دیں تاکہ لالچ، کنجوسی، قطع تعلقی اور غرور و تکبر جیسی برائیاں ہم سے دور رہیں۔ اللہ رب العزت ہم سب کو اعمال صالحہ کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
madhura
21-Sep-2024 03:58 PM
Nice
Reply